میں انگریزی تعلیم کا مخالف نہیں ہوں بلکہ چاہتا ہوں کہ مسلمان نہ صرف دوسری قوموں کے دوش بدوش بی اے۔ ایم اے کی ڈگریاں حاصل کریں
بلکہ میں تو چاہتا ہوں کہ اللہ کرے یہ دنیوی وجاہت میں ان سے بھی بڑھ جائیں
مگر اس وقت مجھے جو کچھ کہنا ہے وہ صرف یہ ہے کہ چونکہ انگریزی تعلیم سے صرف حصول ملازمت اور طلب دنیا مقصود ہے اور درس قرآن سے بظاہر کوئی دنیوی منفعت نظر نہیں آتی اس لئے ہم کثرت سے اپنے بچوں کو طلب دنیا کے لئے انگریزی سکولوں میں دھکیلتے جاتے ہیں اور تعلیم قرآن کی طرف سے بالکل غافل ہو گئے ہیں
اگر اعداد و شمار کی رو سے دیکھا جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر سال صرف کشمیر میں میٹرک پاس کرنے والوں کی تعداد میں پچیس ہزار کے درمیان ہوتی ہے
اور دینی تعلیم پانے والوں کی تعداد چند سے بھی زائد نہیں ہوتی پھر یہ میں پچیس ہزار انگریزی طلب زر کے لئے اپنی عمریں اور جائدادیں تباہ کر لیتے ہیں ملازمت سے بھی محروم رہتے ہیں۔
دین بھی چھوٹا اور دنیا بھی ہاتھ نہ آئی۔ اگر یہ لوگ تعلیم انگریزی کے ساتھ قرآن کریم بھی پڑھ لیتے اور اپنے دین سے بھی آگاہ ہوجاتے تو از کم خالد والآخرہ تو نہ ہوتے
مگر ہوتا کیا ہے۔ ہم اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی مسجد کی بجائے سکول جانے کی تلقین کرتے ہیں اور کہتے ہیں پہلے انگریزی تعلیم حاصل کرو پھر قرآن پڑھائیں گے۔
مگر جب اس نے پرائمری پاس کرلی ۔ تو مڈل میں بھیج دیا۔ مڈل پاس ہوا تو میٹرک گیا۔ میٹرک سے نکلا تو ایف اے بی اے ایم اے کی تیاریاں ہونے لگیں بس پھر کیا ہے وہ بچہ خود بخود ہی ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔
اس کے دل و دماغ پر انگریزی تهذیب، انگریزی تمدن - انگریزی کلچر کا بھوت سوار ہو جاتا ہے۔
وہ قرآن سے واقف تو نہیں ہوتا مگر قرآن پر اعتراض کرنا جانتا ہے اور اسلامی تعلیمات سے تو ناواقف ہوتا ہے یہاں تک کہ نماز اور جنازہ سے بھی نا آشنا ہوتا ہے۔
مگر وہ اسلامی مسائل پر تنقید کرتا ہے اور اپنے آپ کو بڑا مجتہ سمجھتا ہے اور یہ اس کا قصور نہیں ہے بلکہ اس کے والدین کا قصور ہے اور ایسے والدین پر وہ قیامت کے دن لعنت بھیجے گا۔