یہ بات بھی بہتوں کے علم میں ہوگی کہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب انہیں دینی مدارس ( مظاہر علوم سہارنپور، دارالعلوم دیوبند ) کے پروردہ و تعلیم یافتہ اور انہیں خانقاہ کے مشائخ حضرت رائے پوری ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری وغیرہ کے تربیت یافتہ اور فیض یافتہ ہیں جن کے فیوض و برکات کا سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ آپ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں تدریسی خدمات انجام دیتے تھے لیکن امت کی اصلاح کی طرف سے غافل نہ تھے۔
اس وقت حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی اصلاحی و دعوتی کوششیں عروج پر تھیں، دعوت وتبلیغ کے تعلق سے آپ کے مسلسل اسفار بھی ہوتے تھے، اصلاحی مجالس کا سلسلہ بھی قائم تھا، ایک زمانہ میں کانپور کے علاقہ قصبہ گجنیر ضلع کانپور میں ارتداد کی خبر سنی تو آپ دعوت وتبلیغ کے لیے ایک جماعت کے ساتھ تشریف لے گئے، اور ان کو تبلیغ فرمائی ،
ایک عرصہ کے بعد آگرہ “ اور اس کے اطراف کے دیہی علاقوں میں فتنہ ارتدا درونما ہوا، اس کے لیے بھی آپ فکرمند ہوئے۔ چنانچہ اسی وقت عمومی پیمانہ پر آپ نے دعوت و تبلیغ کا سلسلہ قائم فرمایا، حالات اور ضرورت کے مطابق ارتداد زدہ علاقوں میں خصوصاً آگرہ اور اس کے اطراف میں آپ نے علماء ومبلغین کی جماعت روانہ فرمائی۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کی دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں اس وقت جو کوششیں جاری تھیں اس میں پیش پیش بلکہ یوں کہئے کہ سرگرم رکن یہ بزرگ بھی تھے جن کو ہم مولا نا محمد الیاس صاحب کاندھلوی سے یاد کرتے ہیں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی کی تجویز کے مطابق آپ نے ارتدادزدہ علاقوں میں وفد کے ساتھ دعوتی و تبلیغی دورے فرمائے ، سفر کی روداد اور کارگذاری حضرت تھانوی کی خدمت میں لکھ کر بھیجی جاتی ،
حضرت تھانوئی اس کے جواب میں ہمت افزاء کلمات اور دعاؤں سے ان کی تقویت فرماتے جس سے ان کے حو صلے اور بلند ہوتے ۔ ماقبل میں اختصار کے ساتھ جو کچھ عرض کیا گیا اس کا اندازہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے ان خطوط سے کیا جا سکتا ہے جو آپ نے اس موقع پر کارگذاری سننے کے بعد اس وفد کے نام تحریر فرمائے تھے۔
دعوت وتبلیغ کے سلسلہ سے منسلک ہونے اور امت کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نے محسوس فرمالیا تھا کہ امت کے ایمان کی بقاء و تحفظ اور شعائر اسلام کی حفاظت کے لیے اس سے زیادہ وسیع اور عمومی پیمانہ پر اس کام کو کرنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اسی فکر کے ساتھ عمومی پیمانہ پر آپ نے اس کام کو شروع کر دیا، اور مرکز نظام الدین کو آپ نے اپنے اس کام کا مرکز بنایا، اور ابتداء میں میوات اور اس کے اطراف کے لوگوں کو اپنی دعوت و تبلیغ کی محنت کا میدان بنایا، اور کام کے ساتھ آپ نے دینی مدارس کے علماء اور خانقاہوں کے مشائخ سے بھی گہرا ربط رکھا، مدارس اور خانقاہ میں حاضری کو اپنے معمولات میں شامل فرمایا۔ حکیم الامت حضرت تھانوی اور ان کی تعلیمات و تصنیفات سے خصوصی ربط رکھا اور یہاں تک ارشاد فرمایا کہ:
مولانا تھانوی نے بہت بڑا کام کیا ہے بس میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تعلیم تو ان کی ہو اور طریقہ تبلیغ میرا ہو کہ اس طرح ان کی تعلیم عام ہو جائے ،مولا نا تھا نوٹی کے لوگوں کی مجھے بہت قدر ہے۔
( ملفوظات مولانا محمد الیاس ص: ۵۸ ، ملفوظ نمبر : ۵۶)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب کے انتقال کے
موقع پر ارشاد فرمایا: میرا جی چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت کے تمام تعلق رکھنے والوں کی تعزیت کی جائے اور خاص طور پر یہ مضمون آج کل پھیلایا جائے کہ حضرت رحمۃ اللہ کی تعلیمات حقہ اور ہدایات پر استقامت کی جائے اور ان کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کی جائے۔
ملفوظات مولانا محمد الیاس ص: ۶۸ ، ملفوظ نمبر: ۷۵)
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب نے اپنے دعوتی و تبلیغی نصاب میں جن کتابوں سے استفادہ کو اہمیت و اولیت دی ہے اور تنہائی میں اور مجمع میں بھی جن کو بار بار پڑھنے کی ہدایت و تاکید فرمائی ان میں حکیم الامت حضرت تھانوی کی اہم کتاب ”جزاء الاعمال“ کا خاص طور پر تذکرہ کیا ،