مفتی گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے پہلے ہم تبلیغی ہیں

 


بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہ دیا کہ تعجب ہے کہ تبلیغ والوں نے دار العلوم دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مفتی گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ کو بھی اپنا ہم نوا بنالیا۔ 


اس پر حضرت مولانا گنگوہی نے فرمایا: واقعہ یہ نہیں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میں تبلیغی پہلے ہوں، مفتی بعد میں اور دار العلوم کو مفتی کی ضرورت تھی تو تبلیغ والوں سےمفتی مانگا، انہوں نے یہ ضرورت پوری فرمائی ۔ “ 

او کما قال۔ (ماہنامہ النور، تذکر و فقیه الامت حصہ دوم: ۲۳۸)


اسی تعلق کی بنا پر حضرت تبلیغی اجتماعات میں نہایت بشاشت سے شرکت فرماتے ، بیانات فرمایا کرتے یہاں تک کہ دعوت و تبلیغ سے وابستہ افراد سے تو کبھی دعاؤں کی درخواست تک کرتے ، کبھی کوئی جماعت ملاقات کے لیے آتی تو آپ انتہائی شفقت و اپنائیت کا مظاہرہ فرماتے۔



دعوت وتبلیغ کے اکابرین خصوصاً حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تو نہایت ہی گہرے اور قلبی روابط تھے، چناں چہ ایک موقع پر جب حضرت مفتی صاحب اور مولا نا محمد یوسف صاحب کی  ملاقات ایک ریلوے اسٹیشن پر ہوئی تو مولانا محمد یوسف نے فرمایا:

مفتی صاحب! مصافحہ تو بعد میں کیجیو، پہلے مجھے فلاں فلاں مسئلہ کا جواب بتا دو۔ 

حضرت نے جوابات ارشاد فرمائے۔ بعد میں مولانا محمد یوسف نے فرمایا کہ ہم کو دعوت میں لگایا اور خود بیٹھ گئے ؟ حضرت نے فرمایا کہ:

ایک دو کو کسی کونے میں بیٹھ کر کتابوں کی ورق گردانی

کرنے دیں تا کہ آپ کے اس طرح کے سوالات کے جوابات

تلاش کرتے رہا کریں۔ 

( تذکره فقیه الامت حصہ دوم: ۲۴۸)


اس کا نتیجہ تھا کہ جب بھی آپ دہلی تشریف لے جاتے تو مرکز تبلیغ ضرور تشریف لے جاتے اور اکابرین مرکز بھی آپ کے لیے چشم براہ ہوا کرتے علمی طور پر دعوت و تبلیغ کے متعلق آپ نے اتنے فتاوی تحریر فرمائے کہ دوسرے کسی مفتی نے برصغیر کی پوری تاریخ میں اتنے نہیں لکھے، ان فتاویٰ میں تبلیغ کی ضرورت، اس کی مشروعیت و فرضیت، اس کے فوائد و ثمرات اور اس پر کیے جانے والے ہر قسم کے اعتراضات کے مکمل اور تشفی بخش جوابات موجود ہیں ۔

Post a Comment

0 Comments