آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحم و کرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا؛ بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین برتاو کا حکم کیا،
قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا ،لڑکی کی پیدائش کو باعث ننگ و عار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید نے خود اس کی منظر کشی کی ہے۔
وَإِذَا بُشَّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ ، يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشر به “ ۔ ( سورة النحل : ۵۸)
جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب سے جو اسے دی گئی ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف عورت کو جینے کا حق دیا اور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا کیا؛ بلکہ عورت کے وجود کو خیر و برکت کا باعث اور نزول رحمت کا ذریعہ اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخول جنت کا ذریعہ بتایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں یا یہ ان کے پاس رہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرا دیں گی ۔
(ابن حبان : باب ما جاء فی الصبر والثواب ، حدیث : ۲۹۴۵)
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔
( ترندی : باب ما جاء فی الفقہ علی البنات والاخوات ، حدیث: ۱۹۱۴)
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے ان بیٹیوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاو کا سامان بن جائیں گی ۔
( بخاری: باب رحمتہ الولد، حدیث: ۵۹۹۵)