گناہوں پر تین سزائیں

 


بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کا وبال بھی اس پر ضرور پڑتا ہے. توجہ فرمائیے گا ! علماء نے لکھا ہے کہ گناہ کی سزا تین طرح سے ملتی ہے:


ایک کو نکیر کہتے ہیں، یعنی گناہ کیا اور ادھر کوئی مصیبت پڑگئی۔ کئی لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ ایک آدمی میرے پاس آکر کہنے لگا: حضرت! میں نے تجربہ کیا ہے کہ جب میں کسی کا دل دکھاتا ہوں تو میرا کوئی نہ کوئی نقصان ہو جاتا ہے۔ اب وہ کسی کا دل دکھانے سے بہت گھبراتا ہے۔ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کا اثر دنیا میں ضرور دیکھتا ہے۔ کبھی کوئی مصیبت آپڑتی ہے اور کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اس کے ماتحتوں کو اس کا نافرمان بنا دیتے ہیں، مثلاً: بیوی ہٹ دھرم اور ضدی مل جاتی ہے، جو گھر کے سکون کی تباہی کا باعث بنتی ہے، یا پھر اولاد میں سے کوئی ایسا بن جاتا ہے جو اسے موٹے موٹے آنسوؤں سے رلاتا ہے۔ یہ اس گناہ کی نقد سزامل رہی ہوتی ہے۔ اسے ”نگیر“ کہتے ہیں۔ کبھی کبھی گناہ کی سزا ملنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ تاخیر سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو فوری طور پر سزا نہیں دیتے، بلکہ کچھ دیر کے بعد سزا دیتے ہیں۔ انسان گناہ تو جوانی میں کرتا ہے اور سزا بڑھاپے میں ملتی ہے اور بڑھاپے کی سزا بڑی عبرتناک ہوا کرتی ہے۔ فرض کریں کہ بڑھاپے میں بیوی نافرمان بن جائے اور اس وقت اولاد جوان ہو چکی ہو، اور وہ اولاد ماں کا ساتھ دینے والی ہو تو پھر بوڑھے کا جو بڑھا پا گزرے گا وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکے گا۔ یا بڑھاپے میں کوئی ایسی بیماری لگادی کہ دوسروں کا محتاج ہو گیا۔ اس صورت میں بھی بندہ سزا بھگت رہا ہوتا ہے۔


 ایک صاحب اس عاجز کے پاس آکر کہنے لگے: حضرت! میں گناہ بھی کوئی نہیں کرتا،

لیکن بڑی پریشانی رہتی ہے۔ میں نے کہا: آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے زندگی میں جتنے بھی گناہ کیے، کیا ان سب گناہوں سے سچی توبہ کر لی ہے؟ یا کچھ گناہ ایسے بھی ہیں کہ جن سے ابھی تو بہ نہیں کی ؟ کہنے لگے: جی نہیں ، کچھ گناہ ایسے ہوں گے کہ جن سے ابھی توبہ نہیں کی

 میں نے کہا: وہ گناہ نامہ اعمال میں تو لکھے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا آسکتی ہے۔

 

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ کا ایک مرید ان کے ساتھ جارہا تھا۔ اس نے ایک بے ریش عیسائی لڑکے کو دیکھا تو حضرت سے پوچھنے لگا: حضرت! اللہ ایسے چہروں کو بھی جہنم میں ڈال دے گا؟ اس کی بات سے حضرت سمجھ گئے کہ اس نے شہوت کی نظر سے اس کو دیکھا ہے۔

 حضرت نے اسے فرمایا کہ توبہ کرو، کیونکہ تم نے اسے بری نظر سے دیکھا ہے۔ وہ کہنے لگا: جی نہیں ! میں تو ویسے ہی پوچھ رہا ہوں۔ چنانچہ اس نے توبہ نہ کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ حافظ قرآن تھا، اس گناہ کی نحوست کی وجہ سے ہیں سال بعد قرآن پاک کے حفظ کے نور سے محروم ہو گیا ، یعنی وہ قرآن بھول گیا۔ 

 کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خفیہ تدبیر ہوتی ہے۔ خفیہ تدبیر یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کے باوجود اس کو نعمتیں دیتے رہتے ہیں، تا کہ یہ اچھی طرح ان نعمتوں کو استعمال کر کے غافل ہو جائے اور پھر آخرت کی بڑی سزا کا مستحق بن جائے۔ 

 

اس لیے یاد رکھیے کہ جب انسان گناہ کر رہا ہو اور اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھی دیکھ رہا ہو تو یہ بہت ڈرنے کی بات ہوتی ہے۔ 


اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُوا مَا اُوْتُوا أَخَذْنَهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُّبْلِسُونَ ﴾ (الانعام: ۴۴)



پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی ، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے ان کو اچانک آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے ۔“



کئی مرتبہ انسان اس کو سزا سمجھتاہی نہیں اور یہ سب سے بڑی سزا ہوتی ہے اور بندے کو محسوس ہی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ان تینوں میں سے کسی نہ کسی ایک صورت میں گناہوں کی سزا

ضرور دیتے ہیں۔ اسی لیے کسی نے کہا:

عدل و انصاف فقط حشر پر موقوف نہیں 

زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے


Post a Comment

0 Comments