گناہوں کی بدبو

 


نجاست کے اندر بد بو ہوتی ہے، لہذا انسان جن اعضاء سے گناہ کرتا ہے ان اعضاء سے باطنی طور پر بد بو آتی ہے۔ اس کی دلیل حدیث پاک سے ملتی ہے۔ مثال کے طور پر ... حدیث پاک میں آیا ہے کہ انسان جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کے منہ سے بد بونکلتی ہے، حتی کہ فرشتے اس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اس بندے سے ایک میل تک دور ہو جاتے ہیں۔

 (ترمذی، حدیث: ۱۹۷۲)



جب آدمی کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو فرشتے اس آدمی کے اعضاء کو سونگھتے ہیں، جن جن اعضاء سے اس نے گناہ کیسے ہوتے ہیں ان اعضاء سے ان کو بد بومحسوس ہوتی ہے. جیسے بچے ہوئے کھانے کو عور تیں سونگھ کر پتہ لگا لیتی ہیں کہ یہ ٹھیک ہے یا خراب ۔ ذراسی مہک محسوس ہو تو وہ کہتی ہیں کہ کھانا خراب ہے ... بالکل اسی طرح فرشتے موت کے وقت انسان کے اعضاء کو سونگھتے ہیں، اگر ان میں گناہوں کی بد بو ہو تو انہیں پتہ چل جاتا ہے، پھر فرشتے اس کی پٹائی کرتے ہیں اور جو تو بہ تائب ہونے والا نیکوکار انسان ہوتا ہے اس کے اعضاء گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، لہذا ان سے بدبو محسوس نہیں ہوتی۔ (الہدایۃ الى بلوغ النهاية سورة الاعراف، الآية:۴۰) 


سیدنا عثمان غنی کے پاس ایک صاحب آئے اور آپ نے دیکھ کر فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا کہ وہ ہماری محفلوں میں بے مہابہ چلے آتے ہیں اور ان کی نگاہوں سے زنا ٹپکتا ہے. اس سے پتہ چلا کہ بسا اوقات گناہوں کی بدبو بعض لوگوں کو دنیا میں بھی محسوس ہو جاتی ہے۔


یا درکھیں کہ گناہوں کی یہ بدبو صرف دنیاوی زندگی میں اور موت کے وقت ہی فرشتوں کو محسوس نہیں ہوتی، بلکہ جہنم میں جانے کے بعد بھی ان کے اعضاء سے بد بومحسوس ہوگی۔ چنانچہ جو انسان زنا کار ہیں، جہنم میں ڈالے جانے کے باوجود ان کی شرمگاہوں سے ایسی بدبودار ہوا نکلے گی کہ سارے جہنمیوں کو پریشان کر دے گی اور وہ بڑے غصے کے ساتھ اس جہنمی کو دیکھ کر کہیں گے کہ تیرے جسم سے کیسی بد بو نکلی جس نے جہنم کے اندر ہماری تکلیف میں اضافہ کر دیا

Post a Comment

0 Comments